Woh Warq Tha Dil Ki Kitab Ka - وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
Woh Warq Tha Dil Ki Kitab Ka - وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
Writer: Muhammad Iqbal Diwan
Pages: 456
Category: Novel
ان قصوں میں کردار بھی ہیں، واقعات بھی، آپ بیتی بھی اور جگ بیتی بھی، جسمانی خواہشات سے متعلق تلذذانگیزی بھی ہے اور روحانی کیفیات کا حال بھی، رُوح کو چھونے والے انفرادی المیے بھی اور طبقاتی تقسیم کی پیدا کردہ معاشرے کی اجتماعی بےبسی کی تصویریں بھی، بھارتی فلموں میں دکھائے جانے والے انڈر ورلڈ سے ملتے جلتے کردار بھی اور اقدار کے نوحوں کے پہلو بہ پہلو رفعت افکار بھی۔ اس کے مختلف ابواب کے درمیان ایک مخصوص نوع کا تسلسل بھی ہے اور بےربطیٔ گفتار بھی لیکن مجھے اس کتاب کی جس خوبی نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اس کی اپنے آپ کو پڑھوانے کی غیرمعمولی قوت اور صلاحیت ہے جو میرے نزدیک کسی بھی اچھی تحریر کا جزو اعظم ہوتی ہے۔ اس کتاب کی ایک اور اہم اور قابلِ ذکر خوبی مصنّف کی اپنے موضوع اور اس کے متعلقات پر ماہرانہ گرفت ہے کہ وہ ہر واقعے اور کردار کی جزئیات کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ چیزیں، کردار اور منظر آپس میں گڈمڈ نہیں ہوتے۔ کردار نگاری اور منظر نویسی میں انھیں ایک خاص ملکہ حاصل ہے، وہ ایک عمدہ سکرین پلے رائٹر اور باریک بین ڈائریکٹر کی طرح کسی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ تفصیل کی گنجائش نہیں لیکن یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو یقیناً ان کے اس ہنر سے بہت لطف اندوز ہوں گے۔
(امجد اسلام امجد)
’’جسے رات لے اڑی ہوا‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے مصنّف کے مشاہدے سے خوف، ان کی معلومات اور مطالعے پر رشک آیا۔ کتاب بےحد دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب کرداروں کا ایک حسین مرقع ہے جو ہمارے اردگرد موجود ہونے کے باوجود نظروں سے اوجھل ہیں۔ سرکاری ملازم تو ہم بھی رہے مگر دیوان صاحب نے شریک کار ہونے کے دوران انھیں کب دیکھا اور برتا، یہ بات ہمارے لیے باعثِ حیرانی ہے۔
(محترمہ مہتاب اکبر راشدی)
ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہوگا کہ ہم نے فٹ بال کا کوئی عمدہ میچ ٹی وی پر چھوڑا ہو، وہ بھی ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ کے دنوں میں، ذرا مشکل سی بات ہے۔ یہ ظلم ہم پر دیوان صاحب کی کتاب نے کیا اور خوب کیا۔ کتاب ایک دفعہ شروع کی تو رکھنے کو دل نہ چاہا۔ اس کی معلومات، اس کے کردار اور اُن کی بوقلمونیاں ایک عجب نیرنگِ تماشا ہے۔ اب تک یہ کتاب ہم نے تین دفعہ پڑھی ہے اور شناخت پریڈ جاری ہے۔
(عبید اللہ بیگ)
دیوان صاحب نے جو انکشافات اس کتاب میں کیے ہیں وہ ہم جیسے کھوجیوں کے لیے بھی چونکا دینے والے اور دلچسپ ہیں۔ ان کی وقائع نگاری میں دسترس کو دیکھ کر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ ایک بند گلی کی بند زبان اور بےلگام مغرور اور علم دشمن بیوروکریسی کے ممبر ہیں، اگر وہ بھولے بھٹکے سے کوچۂ صحافت کی طرف آجاتے تو بہت سوں کو لینے کے دینے پڑجاتے۔
(نذیر لغاری- ایڈیٹر عوام)