Shah Muhammad Ka Tanga - شاہ محمد کا ٹانگہ
Shah Muhammad Ka Tanga - شاہ محمد کا ٹانگہ
Writer: Ali Akbar Natiq
Pages: 152
Category: Short stories
’’شاہ محمد کا ٹانگہ‘‘ اِس افسانوی مجموعے کی کہانیاں زندگی کی رونقیں اورایسے درد و غم ہیں جنھیں جمع کیا تو چودہ افسانوں کی کتاب مرتب ہو گئی۔ سچ پوچھیں تو مجھے افسانے اور کہانی کی مابعد اور جدید تنقید کے الف با کی خبر نہیں، مجھے نہیں معلوم یہ جدید افسانے ہیں یا کہانیاں ہیں یا یہ سب کچھ روایتی ہیں، مَیں تو اتنا جانتا ہوں یہ میرے دل سے نکلی ہوئی وہ داستانیں ہیں جنھیں مَیں نے خود زندگی کے چوراہوں پر جوان اور بوڑھی ہوتے دیکھا ہے اور اب دل کی بستیاں بسانے والوں کو دکھانے نکلا ہوں۔
اکثر شہری اور درسی نقادوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ میری کہانیاں زیادہ تر دیہات کے پس منظر میں ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ یہ بات اپنے احساسِ کمتری کے باعث کرتے ہیں یا پھر اُنھیں کسی نے سکھا دیا ہے کہ دیہات میں انسان ربڑ کے بستے ہیں اس لیے اُن کی کہانیاں لکھنا عیب کی بات ہے اور شہری لوگوں کی کہانیاں لکھنا برتر کام ہے اور اعلیٰ درجے کا فعل ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی جہاں بسر کی وہیں کی کہانیاں لکھتا ہوں۔ اب اگر مجھے شہر کی زندگی میسر ہے تو شاید آنے والے دنوں میں شہروں پر لکھوں مگر ایک بات بتائے دوں کہ میری نظر میں کہانی صرف کہانی ہوتی ہے اور کہانی وہ ہوتی ہے جس سے زندگی پھوٹتی ہے۔
علی اکبر ناطق
فکشن ایک عرصے سے میری چائے کی پیالی نہیں ہے لیکن علی اکبر اتنا چالاک آدمی ہے کہ پہلے اس نے بہلا پھسلا کر مجھے کوئی تین چار سو صفحات پر مشتمل ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ پڑھوا دیا اور اب یہ افسانے، لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے فکشن بھی پڑھنا چاہیے ورنہ میں نے شاید آخر میں ناول انتظار حسین کا ’’آگے سمندر ہے‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا ’’بہائو‘‘ پڑھا تھا اور اب مجھے مزید فکشن پڑھنا پڑے گا۔ یعنی ... ع دیں ہم اندر عاشقی بالائے غمہائے دگر
اس سمارٹ سے مجموعے میں 13 افسانے شامل ہیں۔ یہاں فرداً فرداً افسانوں کا تجزیہ یا جائزہ لینا مشکل ہے، ماسوائے اس کے کہ مصنف کے مشاہدے کی صورتحال کیا ہے اور اس میں بیان کرنے کی طاقت اور صلاحیت کس حد تک ہے۔ علی اکبر ناطق کو جہاں زبان پر خاصا عبور حاصل ہے وہاں ان کا طرزِ بیان بھی عام فہم اور دلکش ہے اور قاری آخر تک افسانے کی گرفت میں رہتا ہے، اور یہ خوشی کی بات ہے کہ کہانی تجرید کی بھول بھلیوں سے نکل آئی ہے اور اس میں کہانی پن عود کر آیا ہے اور قاری افسانے سے باقاعدہ لطف اندوز ہونے لگا ہے بشرطیکہ یہ پھر اسی طرف واپس چلی جائے۔ علی اکبر ناطق نے جس مختصر عرصے میں اپنی پہچان قائم کی ہے اور بڑے بڑوں سے اپنا اعتراف کروایا ہے وہ خوش آئند بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ پاکستان میں شاعری کے حوالے سے معاملات اوپر نیچے رہتے ہیں اور اپنے پائوں پر بھی کھڑے ہوتے نظر آتے ہیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ ز یادہ تر منظر فکشن نے سنبھال رکھا ہے اور اس کتاب کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سعیٔ مسعود پر میں اس نوجوان کو مبارکباد پیش کرنے میں کوتاہی نہیں کرنا چاہتا ...ع ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
ظفر اقبال