Kai Chand The Sar e Asman - کئی چاند تھے سر آسماں
Kai Chand The Sar e Asman - کئی چاند تھے سر آسماں
Writer: Shamsur Rahman Faruqi
Pages: 776
Category: Novel
’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی اُردو دنیا کی ایسی عہدساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پراعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں ’’پدم شری ‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومت پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ خلاق شاعر، مجتہد نقاد، دانشور اور شب خون جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر اور سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار جنہوں نے اپنے فن پارے کو تہذیبی مرقع بنا کر اس صنف پر امکانات کے نئے آفاق کھول دیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی ۱۵جنوری ۱۹۳۶ء کو پرتاب گڑھ، یوپی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم وفضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ۱۹۵۳ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے ۔ ادبی رسالہ’’شب خون‘‘ نکالا اور کئی نسلوں کے ادیبوں کی تربیت کی۔ شمس الرحمٰن فاروقی ’’گنج سوختہ‘‘، ’’سبز اندرسبز‘‘، ’’چارسمت کا دریا‘‘، ’’آسماں محراب‘‘، ’’سوار اوردوسرے افسانے‘‘، ’’افسانے کی حمایت میں‘‘، ’’لفظ ومعنی‘‘، ’شعر شور انگیز‘‘، ’’عروض، آہنگ اور بیان‘‘، ’’اُردو غزل کے اہم موڑ‘‘، ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘، ’’قبض زماں‘‘ اور زیر نظر شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ کے مصنف ہیں۔
----
مدتوں بعد اُردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہند و پاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا اس کا مقابلہ اس ہلچل سے کیا جائے جو ’’امرائو جان ادا‘‘ نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی؟ اور یہ ناول ایک ایسے شخص کے قلم سے ہے جسے اوّل اوّل ہم نقاد اور محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بطور ناول نگار خود کو منکشف کیا ہے اور محقق فاروقی یہاں پر ناول نگار فاروقی کو پوری پوری کمک پہنچا رہا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ تحقیق و تنقید اور تخلیق کا کوئی ساتھ نہیں۔ لیکن زیرِ نظر ناول کو اس بات کی، جسے قاعدئہ کلی کے طور پر دیکھا گیا ہے، استثنائی صورت سمجھنا چاہیے۔ یہاں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے رُوپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں لہٰذا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کچھ الگ طرح کا ناول ہے۔ ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو جزئیات پر مکمل مہارت ہے۔ انھوں نے وزیر خانم کی زندگی کو اس درجہ لطافت، نزاکت اور تمام باریک جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری تہذیب، جسے ہند مسلم تہذیب کہیے اور اس کے آخری دنوں میں اس کی چمک دمک اور برگ وبار کا پورا نقشہ آجاتا ہے.... اور وزیر خانم کا کردار بھی کیا کردار ہے کہ وہ تنہا اپنی ذات میں اس تہذیب کا مجسم وجود معلوم ہوتی ہے۔
انتظار حسین
View full details