Skip to product information
1 of 1

Dhaka Main Aaunga - ڈھاکہ میں آؤں گا

Dhaka Main Aaunga - ڈھاکہ میں آؤں گا

Regular price Rs.1,000
Regular price Rs.1,500 Sale price Rs.1,000
33% OFF Sold out

Writer: Sohail Parwaz

Pages: 448

Category: Novel, Dhaka Fall Based Novel

ڈھاکہ میرے لئے پرستان کی سی اہمیت رکھتا ہے ماں اور بابا اسی زمانے میں ڈھاکہ کے رہائشی تھے اور بابا ڈھاکہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اور نمایاں نام رکھتے تھے اور اسیری سے رہائی کے بعد لوٹے تھے ۔ اس پرستان کے ایسے ایسے قصے ہم نے سن رکھے ہیں کہ ہم تمام اولادوں کے دل میں ایک ایک ڈھاکہ بستا ہے ۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی نقشے پر پاکستان کی پیدائش ١٩٤٧ء کے حوالے سے کئی خون رنگ کہانیاں ہمارے ادب کی زینت ہیں لیکن ان کہانیوں کے آخر میں قربانیوں میں شہزادے شہزادیوں کے ملن کی طرح ایک آزاد وطن کا انعام مل جانا تقویت کا باعث ہے ۔ یہ دوسری بڑی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کو کاٹ کر پاکستان کو اپاہج کر دینا بہت بڑا المیہ اور سازش تھی وہ زخم کبھی بھرا نہیں جا سکا بلکہ خون رستا ہی رہتا ہے اور سانحے کے انجام پہ نظر ڈالیں تو زخم چِھل کر دہکنے لگتے ہیں ایک ایسا گھاؤ جو کبھی بھرا نہیں جا سکا ۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے حسّاس ادیب نے اس تکلیف دہ موضوع کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی یعنی اس موضوع پہ اتنا نہیں لکھا گیا جیسا لکھنے کا حق تھا ۔۔

میری ڈھاکہ کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی تھی ۔ دل کے ایک کونے میں چھوٹا سا ڈھاکہ سو رہا تھا یہ ناول پڑھتے پڑھتے میرے اندر دھماکے ہونے لگے جیسے چاغی کے پہاڑوں کا رنگ ٢٨مئی ١٩٩٨ء کو بدلا تھا اور سویا ہوا ڈھاکہ انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا ۔۔۔ ناول کی بنیاد مشرقی و مغربی پاکستان کے دو خوشحال خاندانوں کے ساتھ رکھی گئی ۔۔ ناول کا ہیرو مشفق الاسلام مشرقی پاکستان سے پاک فوج کے لئے منتخب ہو کر تربیت کے لئے ڈرتا جھجھکتا مغربی پاکستان میں آتا ہے جہاں مغربی پاکستانیوں کی بے پناہ محبت اس کے دل میں گھر کر لیتی ہے ۔ وہ ان محبتوں کا اسیر ہو جاتا ہے اور ایک اتفاق کے تحت اسے یہاں اپنے روم میٹ کیڈٹ کے گھر اور فیملی سے ہمدردی ہو جاتی ہے جو بعد میں رشتہ داری میں بدل جاتی ہے اور وہ اس گھر کا بیک وقت بیٹا اور داماد بن جاتا ہے ۔ شروع میں تو لگا کہ دو الگ بھاشا بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی محبت و معاشرت کی ایک ہلکی پھلکی داستان ہے ۔ ہلکی سی اکتاہٹ ہوئی لیکن مجھے ناول ہر حال میں پورا پڑھنا تھا ۔۔ جلد ہی مجھ پہ آشکار ہوا وہ اکتاہٹ نہیں بلکہ اسیری سے پہلے والی احتیاط اور بے چینی تھی جوں جوں کہانی آگے بڑھتی گئی مجھے اسیری کے سنہرے پنجرے میں جکڑنے لگی ۔ داستان میں محبت کے ساتھ سرفروشی اور جذبۂ حب الوطنی غالب آنے لگی ۔۔۔ کہیں کہیں میٹھی بنگلہ بھاشا کے جملے سماعتوں میں رس گھولنے لگے وہی جملے جو ماں اور بابا آپس میں بولتے تھے ۔۔ سیاسی و معاشی کئی طرح کی غلط فہمیاں کھل کر سامنے آنے لگیں جو آخر تک دھل گئیں ۔ ( یہ مصنف کا کمال ہے ) شیخ مجیب الرحمان اور انکی عوامی لیگ کی وجوھات اور انڈین آقاؤں کے ہاتھوں کھیلنے بلکہ بکنے کی روداد سے صحیح معنوں مین واقفیت ہوئی ۔ تاریخ کی طالب علم ہونے کے باوجود مکتی باہنی فورس کی داغ بیل کیوں اور کیسے پڑی یہ گتھی کبھی نہیں سلجھتی تھی یہاں مصنف نے اتنی نرمی سے یہ گرہ کھولی کہ سب کچھ واضح ہوگیا ۔ اصل کہانی تو ڈھاکہ فال کے بعد شفو بھیا کے ہتھیار نہ ڈالنے سے شروع ہوئی ۔ انکے فرار اور جنگلوں میں رفت و قیام کے آلام اور مفلسی کے واقعات , اتنے دلگداز تھے کہ بعض دفعہ تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔ کئی دفعہ دل بھر آیا ۔۔ یکے بعد دیگرے ان کے دو عزیز از جان ساتھیوں کی شہادت اور کسمپرسی پہ دل لہو ہوگیا ۔ مجھے خود پہ حیرت ہے میں نے ناول کے کئی پیراگراف باآوازِ بلند پڑھ کر خود کو سنائے ۔ بھرے گلے کو دل میں اور بجتے دل کو اپنے کانوں میں سنا ۔۔ شائد میں ناول کو آنکھوں اور دل دونوں طرح سے منظر کرنا چاہتی تھی ۔ برما کی جیل میں پندرہ برس کی قید کے بعد بھی ایک محب الوطن مجاہد کے ہتھیار نہ ڈالنے کی کہانی نے دل میں کئی زخم ڈالے لیکن اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی پہ اعتماد اور بھی بڑھ گیا ۔ ناول سپاہی کے فرض اور محبت کی ایک خوبصورت داستان بھی ہے جس نے وطن کی آن پہ اپنے بشری تقاضے قربان کر دئیے لیکن شکست تسلیم نہیں کی ۔ طویل قید و بند کی صعوبتوں کے بعد اچانک رہائی اور اپنے گھر والوں سے ملنے کی داستان بھی دل کو کئی بار رقیق کر گئی ۔۔ آخر میں مصنف نے جس شان کے ساتھ ہیرو مشفق کو اس کے آبائی شہر اور خاندان کی طرف واپس لوٹایا ملک دو لخت ہونے کے باوجود دل اش اش کر اٹھا ۔۔ اور ناول کے عنوان کا مقصد بھی سمجھ میں آگیا ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ناول ادب کے افق پہ ایک تابندہ ستارے کی مانند جگمگانے جا رہا ہے ۔ ناول کو بے پناہ پذیرائی ملےگی اور یہ بھی یقین ہے کہ اسے جلد یا بدیر فلمایا بھی جائے گا ۔ اس کہانی کو زیادہ پراثر کرنے کے لئے اور نسلِ نو کی آگاہی کے لئے اسے فلمایا جانا بے حد ضروری ہے ۔ میری نیک تمنائیں ہیں کہ ناول چودھویں کے چاند کی مانند ادب کے بام پہ جگمگائے ۔ میں تو اس ناول کی اسیر ہو گئی ہوں جلد رہائی ممکن نہیں ۔۔

زارا مظہر

View full details

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)