Skip to product information
1 of 1

Chand Ko Gul Karen To Hum Janen - چاند کو گل کریں تو ہم جانیں

Chand Ko Gul Karen To Hum Janen - چاند کو گل کریں تو ہم جانیں

Regular price Rs.1,400
Regular price Rs.2,000 Sale price Rs.1,400
30% OFF Sold out

Writer: Osama Siddique

Pages: 480

Category: Novel

اس ناول نے میرے اندرعجیب و غریب کیفیات برپا کیں۔ اس کا ماحول تاریک ہے اور قدرے بھیانک بھی۔ نہایت وسیع پھیلائو ہونےکے باوجود مصنف نے بہت مہارت سے اور قدرے اختصار کے ساتھ ماضی، حال اور مستقبل کے نسبتی سلسلوں کی بنت کاری کی ہے۔ اس تجربے کا ماحصل یہ لرزا دینے والا تصور ہے کہ بدی یعنی حرص اور تخریب کی جبلت انسان کی تقدیر ہے۔ نہایت فن کاری سے لکھا گیا یہ ناول تاریخ و ثقافت کے طویل ادوار کو اپنے پُراعتماد بیانیے سے ایسے یکجا کرتا ہے کہ ماضی اور حال کی تصاویر اتنی ہی جاندار نظر آتی ہیں جتنا مستقبل کا تصور۔ ناول یہ کہتا محسوس ہوتا ہے کہ روز حاضر کے خوف آنے والے دنوں کے ہیبت ناک اندیشوں سے کچھ کم نہیں۔ علمیت اور ذہانت سے لبریز یہ تحریر پڑھنے والے کو لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی۔

(شمس الرحمٰن فاروقی)

میں نے اپنے کسی ناول میں لکھا تھا کہ وقت ایک تسلسل کے ساتھ گزرتا جاتا ہے اور ہم ٹھہرے ہوتے ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ وقت ہے جو تھم چکا ہے اور یہ ہم ہیں جو گزرتے جاتے ہیں۔ اسامہ صدیق کا ناول ’’چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس سراب کا شکار ہوا کہ وقت ٹھہر چکا ہے اور یہ اسامہ صدیق ہے جو اس میں گزرتا جاتا ہے۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب ایک کھوجی کی مانند سفر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوت وقت کے نقشِ پا کو دریافت کرنے کبھی تو الٹے قدموں ماضی میں چلی جاتی ہے اور کبھی مستقبل کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔ ماضی کا سفر آسان ہوتا ہے کہ آپ تحقیق اور وجدان کو بروئے کار لا کر اسے زندہ کر سکتے ہیں، موجودہ زمانہ آپ کی آنکھوں میں عکس ہوتا جاتا ہے اور آپ اسے اپنے مشاہدے میں منتقل کر کے بیان کر جاتے ہیں لیکن مستقبل میں اترنے کے لیے اپنی جان دائو پر لگانی پڑتی ہے اور یہ صرف قوتِ متخیّلہ ہے جس کے زور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی تصویرمیں کون سے کردار حرکت کریں گے۔ جیسے کچھ مہم جو گہرے غاروں کی تاریکی میں اتر جاتے ہیں اور نئی دُنیائیں دریافت کرتے ہیں ایسے ہی اسامہ اپنے تخیل کے سہارے مستقبل کے اجنبی اور نادریافت غاروں میں اترا ہے اور اَن دیکھی دُنیائوں کے باشندوں کو اپنے زورِ قلم سے زندہ کر دیا ہے۔ اسامہ جس آسانی اور قوت بھری روانی سے ماضی میں لوٹ جاتا ہے، پھر حال کا سفر اختیار کر کے مستقبل میں جا آباد ہوتا ہے، میرے لیے شدید حیرت کا باعث بنا۔ میں تو اپنے ناول ’’بہائو‘‘ کے کرداروں کی تلاش میں سرسوتی ندی کے سوکھتے ہوئے پانیوں تک جا پہنچا۔ موہنجوداڑو کی گلیوں کی مسافت اختیار کی۔ ان زمانوں میں واپس گیا تو بس وہیں رہ گیا، لوٹ آنا میرے بس میں نہ رہا اور اسامہ ہے کہ نہ صرف ماضی میں کچھ ایام بسر کرتا ہے، پھر حال کو بیان کرتے ہوئے مستقبل کی وادیوں میں کوہ نوردی کرنے لگتا ہے اور اس کے چہرے پر ان مسافتوں کی تھکن ہی نہیں ۔ اس کی تحریر کی دل کشی اور دل ربائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ادب کے آسمان پر اسامہ ایک ایسے ماہتاب کی مانند ابھرا ہے جو کبھی بجھایا تو نہ جائے گا۔

(مستنصر حسین تارڑ) 

View full details

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)