Skip to product information
1 of 1

Anwasi - انواسی

Anwasi - انواسی

Regular price Rs.1,050
Regular price Rs.1,500 Sale price Rs.1,050
30% OFF Sold out

Writer: Muhammad Hafeez Khan

Pages: 350

Category: Novel

قد آدم کھڑکی ہے میرے کتابوں کے کمرے کی جس میں سے ہوا، زندگی، روشنی، سبزہ، سُرخ پھولوں والا گھنا درخت اور پرندوں کی آوازیں ساتھ ہیں۔ میلہ لگا ہے۔ دو تکیے صوفے پر ڈال لیے ہیں۔ مکمل سکون ہے اور محمد حفیظ خان کا ناول ’’اَنواسی‘‘ ہے....
انواسی کون ہے؟ انواسی ایک ایسی عورت ہے جو وقت کے ہاتھوں کچلے جانے کے باوجود اپنی بقا کی جنگ اپنے کسے ہوئے کمان بدن ، منتقم دل ودماغ اور رُوح کی سفاکانہ چالوں سے لڑتی رہی۔ یہ ایک ناول نہیں ہے یہ ایک غیرمعمولی ناول جو ہر عہد میں اپنا قاری تلاش کر لے گا ۔ سنگری نام ہے مرکزی کردار کا اور یہی انواسی ہے۔ وقت کا جبر ہے۔ لگتا تھا سیدا اپنا کردار ادا کرے گا لیکن وہ محب وطن انگریز سرکار سے بر سر پیکار رہا۔ اسی بھگدڑ اور بے چین الجھی پھنسی زندگی میں ایک رات اس نے سنگری کا بدن تار و تار کر دیا اس میں بھی قصور سنگری کی ہٹ دھرم اور ضدی مزاج کے نام جاتا ہے۔ ایک کردار منگر کا ہے، لگتا ہے وہ زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہے اور سنگری نے بھی اسے جوتی کی نوک پر رکھا اور اسی سنگری نے ایک بااثر ڈیل ڈول موٹی توند والے امام مسجد مولوی پر اپنے کمان بدن سے ایسا تیر مارا کہ وہ مرغ بسمل کی طرح اس کی رانوں کے درمیان پھڑکنے لگا اور چوبیس گھنٹے میں اس سے شادی رچائی کیونکہ سیدے کے بیج نے اس کی کوکھ ہری کر دی جسے ہر حال میں چھپانا تھا....
یہ اس دَور کی کتھا ہے جب بر صغیر میں انگریز نے زمین پر لوہا بچھانا شروع کیا جس پر کالے سٹیم انجن نے پورے خطے میں لوہے کے ڈبے کھینچ کر اسلحہ بارود اور سامان جلد سے جلد یہاں سے وہاں پہنچانا تھا.... توہمات کا عہد تھا .... جان برنٹن ایک چیف انجینئر ہے اس نے ریلوے لائین جہاں سے گزارنا تھی راستے میں ایک قدیمی قبرستان تھا جہاں سے ریلوے لائن گزرنا تھا ۔بستی والے دیوار بن گئے کہ ہم اپنے پرکھوں کی قبروں کا دفاع کریں گے ۔ ناول نگار نے اس اکھڑ پیچ جنگ کو اس طرح پینٹ کیا ہے گویا کیمرے سے عکس لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریز افسران کی باہمی مناقشت ایک دوسرے کو کچل کر اگلی سیڑھی چڑھنے میں زور آزمائی زوروں پر ہے۔ جان برنٹن کا سوتیلا بیٹا اعلیٰ افسر سے مل کر اس کے خلاف چالیں چلتا رہا۔ اس مسابقت کی دوڑ میں جونیر سٹاف سے ایک خوبصورت عورت کا جال جان برنٹن پر پھینکا گیا جس نے اپنے ریشم ایسے بدن میں جان برنٹن کو لپیٹ کر بے بس کر دیا ۔ وہ ریشم کی دلدل میں اترتا چلا گیا.... الزامات کئی نوعیت کے گھڑ لیے گئے اور اسے نوکری سے برخواست کر دیا گیا....انگریزوں نے مقامی لوگوں اور علمائے سو سے مل کر قبرستان برابر کر دیا اور ریلوے لائن گزار دی....
ابھی کہانی ندی کی طرح بہہ رہی ہے۔مولوی کے گھرانے پر کیا گزری ؟ سنگری کہاں گئی....؟ منگر کہاں گیا؟ یہ سربستہ راز ہیں جن کی کھوج میں آپ کو ’’اَنواسی‘‘پڑھنا ہے اور اُردو ادب کے عظیم ناول سے لطف اندوز ہونا ہے۔محمد حفیظ خان نے ’’اَنواسی‘‘ایسا شان دار ناول لکھا ہے جو کسی ایک صدی میں قید نہیں آنےوالےوقتوں میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ آپ نے یہ عظیم الشان ناول نہیں پڑھا تو کیا پڑھا .... کتاب انسان کے لیے ایک روشن زندگی ہے ۔ کتاب سے پیار کیا کیجئے ۔ کتابیں بے وفا نہیں ہوتیں ....انواسی بہ خیر!
محمد حامد سراج
(چشمہ بیراج، ضلع میانوالی)


میں نے جب سے ہوش سنبھالا،ستلج کو ایسا ہی دیکھا۔ کسی ودھوا کی سیندور سے عاری اجڑی مانگ سا۔ کسی حق بخشوائی گئی ان چھوئی عورت کے دل کی طرح ویران جھلستا کلستا زندگی کے لمس سے قطعی نا آشنا۔ دامن میں حد نگاہ تک پھیلی بوند بوند کو ترستی ریت سمیٹے۔ میں آج تک ستلج کی اس ویرانی کو سندھ طاس معاہدے کا شاخسانہ ہی سمجھتی آئی۔ جس نے اس بدقسمت دریا کے حسن و شباب، سندرتا، کو ملتا کو خوب رگیدا اور اسے اس کے باکرہ پن سے محروم کر کے ’’انواسی ستلج‘‘ بنا دیا۔لیکن بھلا ہو حفیظ خان کا،جنھوں نے ’’اَنواسی‘‘ جیسا باکمال ناول لکھ کر یہ گرہ کشائی کی۔ ’’اَنواسی‘‘ داستان ہےاسی ستلج کی ریتلی دبیز تہوں میں گم ہوئے نوآبادیاتی جبر اور استحصال کے مدفن کی کھدائی کی۔ انیسویں صدی کے آخری نصف کی جب انگریز اپنا ریلوے نظام لے کر برصغیر پہنچے اور کراچی سے لاہور تک ریلوے ٹریک بچھاتے ہوئے بہاول پور کے دریائے ستلج پر ایمپریس پُل بنانے کے لیے اس دریا کی باکرہ کوکھ چیر کر لوہے کے ستون گاڑنے اور برطانوی استعمار کے ہاتھوں مقامیت برباد ہونے کا آغاز ہوا۔ ناول کی مرکزی کردار سنگری اور دریائے ستلج، دونوں کے اَنواسی پن اور ویرانی کا آغاز بھی اسی وقت ہوا جب اس کے کنارے آباد مقامی آبادی کے قدیم قبرستان کو مسمار کر کے مدت مدید سے وہاں مدفون بزرگوں اور شہدا کی گل چکی ہڈیوں کو نکالا گیا۔ درویشوں نے اجتماعی گریہ زاری کی اور آسمان کی جانب شہادت کی انگلی اٹھا کر بددعا دی:
’’برباد ہو اے ستلج کہ جس پر لوہا ڈالنے کے لیے شہدا کا مدفن اجاڑا گیا۔ برباد ہو اے ستلج کہ تیرے سبب بےگناہوں کا خون تیری گزرگاہ میں بہا۔ برباد ہو اے ستلج اس طرح کہ تو خلقت کے واسطے عذاب ثابت ہو۔ رفتہ رفتہ تیری رگوں میں بھی موت اترے، تو بھی بےآب و نشان ہو، تجھ میں کبھی ماس مچھی پیدا نہ ہو، تم پر کبھی پرندے نہ اتریں اور تو ہمیشہ زندگی کے لمس کو بھی ترسے۔‘‘
حفیظ خان، فطرت و نفسیات اور بالخصوص نسوانی نفسیات کے گوڑھے رمز شناس۔ جوان پہلوؤں کا بھی درک رکھتے ہیں جہاں تک شاید اس کے اپنے شعور کی رسائی بھی نہ ہو۔ ’’ادھ ادھورے لوک‘‘ کی تلسی، رادھی، سلمیٰ اور اب انواسی کی سنگری اس کا بین ثبوت ہیں۔
’’اَنواسی‘‘، سیدا، سنگری، منگر، ایما اور جان برنٹن جیسے خوب صورت فرضی کرداروں کے ذریعے حقیقی تاریخی تناظر میں لکھے اس ناول کو روانی بیان عمدہ اسلوب اور دل چسپ کہانی کے باعث میں نے حسب عادت ایک نشست میں ہی پڑھا۔ اس دل انگیز تحریر کے متعلق اگرچہ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہےاور لکھا جاتا رہے گا لیکن میری محدود فکر اس ریاست، اس کے عوام اور اس کے دریا کی ویرانی دیکھ کرمصنف کے کیے ہوئے اسی سوال پر آ کر رک گئی ہے کہ کیا واقعی اس دریا، اس کی گزر گاہ اور اس علاقے کو ہمیشہ سے مظالم اور بددعاؤں کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر عصمت درّانی
(شعبہ فارسی، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور)

 

View full details

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)